تارے کھلے ہوئے ہیں شب ماہتاب ہے
تارے کھلے ہوئے ہیں شب ماہتاب ہے
معشوق ہم پیالہ ہے بزم شراب ہے
یہ کیا ستم ہے وصل میں منہ پر نقاب ہے
قربان اس حیا کے یہ کیسا حجاب ہے
بیٹھے ہو میرے سامنے پہلو میں غیر کے
پھر مجھ سے پوچھتے ہو تمہیں کیوں عتاب ہے
یہ فیض ہے مرے عرق انفعال کا
نار جحیم میرے لئے آب آب ہے
تصویر غیر بھیج کے اس نے بلف خط
عنواں یہ لکھ دیا ترے خط کا جواب ہے
کیوں چھیڑتے ہیں مجھ کو نکیرین قبر میں
جو سو رہا ہو اس کو جگانا عذاب ہے
اس کے بھی مستحق نہیں اغیار نا بہ کار
گالی بھی آپ دیں تو وہ در خوشاب ہے
مجھ کو نہیں ہے شمع کی حاجت سر مزار
میرا ہر ایک داغ جگر آفتاب ہے
تم تو فروغ حسن میں بر خود غلط رہے
میں نے نہ کہہ دیا تھا یہ دھوکہ ہے خواب ہے
کعبہ جو اک بتوں کا پرانا مقام تھا
زاہد وہاں کے شوق میں پادر رکاب ہے
بھولے ہوئے ہو عہد جوانی پہ کس لئے
اس سے تو پائیدار زیادہ حباب ہے
رسوا مرے کئے سے نہ ہوگا وہ حشر میں
اس کا شریک یہ دل خانہ خراب ہے
پھندے میں پھنس گیا دل ناداں ہزار حیف
کس کو خبر تھی زلف تمہاری طناب ہے
کیوں تم نے میرے خط کے پرخچے اڑا دیئے
ناراض ہو تو مجھ سے ہو مجھ پر عتاب ہے
ہم کو نہیں ہے جس لب نازک سے فیض کچھ
ہو وہ جو خوش نمائی میں برگ گلاب ہے
مطرب نے راگ چھیڑا ہے آ کر شب فراق
کیا دل خراش نغمۂ چنگ و رباب ہے
راسخؔ ملا ہے اپنی ریاضت کا پھل مجھے
نخل سخن جو آج مرا باریاب ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.