تاریخ کی جوان امیدوں کے روبرو
تاریخ کی جوان امیدوں کے روبرو
جلتے رہے بہار کے ایوان رنگ و بو
تو ہی تو ہے کہ اب مجھے پہچانتا نہیں
حالانکہ میرے دل میں دھڑکتا رہا ہے تو
اب زندگی کے نام پہ یوں چونکتا ہوں میں
جیسے نیا خیال ہے موضوع گفتگو
کل دو گھڑی گزار کے زلفوں کی چھاؤں میں
میں آج در بدر ہوں مرا ذکر کو بہ کو
جو زہر ہے صلیب ہے خنجر کی پیاس ہے
وہ خواب لے چلا ہوں زمانے کے روبرو
راس آ گیا ہے وقت کے زخموں کا راستہ
کیا کیجئے حسین ستاروں کی جستجو
یہ میکدے کی شام بھی کتنی اداس ہے
احباب کا خلوص نہ رندوں کی ہاؤ ہو
پھر دل کے آس پاس کوئی شمع تو جلے
پھر مانگ لو کسی سے کوئی زخم آرزو
یہ بھی درست ہے کہ تجھے میں بھلا چکا
یہ بھی غلط نہیں کہ مری زندگی ہے تو
شاید وہیں سے ہو کے سویرا گزر گیا
بکھرے ہوئے پڑے ہیں جہاں خواب آرزو
معیار فن کا قرض چکانے کے واسطے
جامیؔ دیا ہے میں نے شب و روز کا لہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.