تاروں کی جھمکتی باڑھ تلے آنکھوں میں رات گزاری ہے
تاروں کی جھمکتی باڑھ تلے آنکھوں میں رات گزاری ہے
اور آٹھ منٹ کی دوری پر سورج کی زرد عماری ہے
گردوں پہ کمندیں ڈال چکے خورشید اچھالا نیزے پر
امکان کی سرحد پار ہوئی اب آگے کی تیاری ہے
طبلے کی گت لہراتی ہے کافوری شمعوں کی لو پر
اور نیمۂ شب کے محضر میں سنگت کو اک درباری ہے
مستقبل کے سیارے پر کچھ صاحب امر مشیں زادے
مصروف ہیں کار دنیا میں اور اپنے لیے بیکاری ہے
بازار چڑھا تو سوداگر خوابوں کے بغچے باندھ چلے
رستے میں مگر شب خون پڑا شمشیر اجل نے ماری ہے
جس کارن دیس بدیس لڑے لشکر پیادے سالار جواں
قصباتی قحبہ خانے کی لچکیلی سی بھٹیاری ہے
ایمان اور صبر کی وادی سے جنت کی طرف جانا تھا مگر
کچھ ایماں کی کمزوری ہے کچھ صبر کا پتھر بھاری ہے
گر وقت کا دھارا ٹوٹ گیا پھر محفل ہست و بود کہاں
بہتے ہوئے دریا پر تو نے کیا سوچ کے لاٹھی ماری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.