تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
تازہ ہو دماغ اپنا تمنا ہے تو یہ ہے
اس زلف کی بو سونگھئے سودا ہے تو یہ ہے
قینچی نہیں چلوائی مرے نامہ نے کس پر
پروار کبوتر ہو جو عنقا ہے تو یہ ہے
کچھ سرو کا رتبہ ہی نہیں قد سے ترے پست
شمشاد او صنوبر سے بھی بالا ہے تو یہ ہے
ملتا جو نہیں یار تو ہم بھی نہیں ملتے
غیرت کا اب اپنے بھی تقاضا ہے تو یہ ہے
اے نور نظر معجزۂ حسن سے تیرے
اندھے بھی کہیں گے کہ مسیحا ہے تو یہ ہے
محشر کو بھی دیدار کا پردہ نہ کرے یار
عاشق کو جو اندیشۂ فردا ہے تو یہ ہے
بینا ہوں جو آنکھیں تو رخ یار کو دیکھیں
نظارہ کے قابل جو تماشا ہے تو یہ ہے
مضموں دہن یار کا کیا فکر سے نکلے
لاحل جو معموں میں معما ہے تو یہ ہے
گہہ یاد صنم دل میں ہے گہہ یاد الٰہی
کعبہ ہے تو یہ ہے جو کلیسا ہے تو یہ ہے
معشوق و مے و خانۂ خالی و شب ماہ
عاشق کے لیے حاصل دنیا ہے تو یہ ہے
دیوانے نہ کیوں کر خل و زنجیر پہنتے
سرکار جنوں کا جو سراپا ہے تو یہ ہے
دل کے لیے ہے عشق تو دل عشق کی خاطر
مے ہے تو یہ ہے اور جو مینا ہے تو یہ ہے
دیوانۂ قد کے کبھی نالوں کو تو سنیے
ہنگامۂ محشر کا سا غوغا ہے تو یہ ہے
ثابت دہن یار دلیلوں سے کر آتشؔ
حجت کی جو شاعر کے لیے جا ہے تو یہ ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.