تبدیلیٔ مزاج کو آب و ہوا ملے
ساگر میں جو کشش ہے پہاڑوں پہ کیا ملے
میں سیپیاں ہی چنتی ہوں ساحل کی ریت سے
میں ڈھونڈھتی ہی کب ہوں کہ موتی پڑا ملے
آمادہ ہی نہیں ہے پرندہ رہائی پر
زنجیر ٹوٹ جائے یا پنجرہ کھلا ملے
اندر کی توڑ پھوڑ نے تعمیر کر دیا
اب اس سے بڑھ کے اور بھلا کیا سزا ملے
اک میں نہیں اکیلی سرابوں کے شوق میں
اپنے علاوہ اور کئی مبتلا ملے
ہمدرد بن کے سنتے ہیں سب کی کہانیاں
مضمون لکھنے کے لیے کچھ تو نیا ملے
آنکھوں میں ایک اشک ہی رکھا سنبھال کے
دیکھا نہ کوئی خواب تو تعبیر کیا ملے
دیرینہ دوستوں کا کبھی تو خیال کر
یہ کیا کہ جب ملے تو سبھی سے خفا ملے
گویا سکون قلب عطا کر دیا گیا
صد شکر ہے خدا کا ہمیں مصطفیٰ ملے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.