تڑپ اٹھتا ہوں یادوں سے لپٹ کر شام ہوتے ہی
تڑپ اٹھتا ہوں یادوں سے لپٹ کر شام ہوتے ہی
مجھے ڈستا ہے میرا سرد بستر شام ہوتے ہی
پرندے آشیانوں سے پناہیں مانگا کرتے ہیں
بدلنے لگتا ہے آنکھوں کا منظر شام ہوتے ہی
ہر اک لمحہ نئی یلغار کا خطرہ ستاتا ہے
مخالف سمت سے آتے ہیں لشکر شام ہوتے ہی
میں بوڑھا ہو چلا ہوں پھر بھی ماں تاکید کرتی ہے
مرے بیٹے نہ جانا گھر سے باہر شام ہوتے ہی
خدایا خیر آخر کون سی بستی میں آ پہنچا
پڑوسی پھینکنے لگتے ہیں پتھر شام ہوتے ہی
نہ جانے ان دنوں خاموش سا رہتا ہے کیوں دن میں
ابل پڑتا ہے جذبوں کا سمندر شام ہوتے ہی
اجالے میں کسی صورت سفر تو کٹ ہی جاتا ہے
میاں راشدؔ مگر لگتی ہے ٹھوکر شام ہوتے ہی
- کتاب : Shaam Hote hi (Pg. 12)
- Author : Rashid Anwar Rashid
- مطبع : Rashid Anwar Rashid (2007)
- اشاعت : 2007
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.