تحلیل ہوئے جاتے ہیں آواز کے سم میں
تحلیل ہوئے جاتے ہیں آواز کے سم میں
طائر تو چلے آئے تھے گندم کے بھرم میں
آواز لگاتی ہے مجھے میری خموشی
اور شور مچاتی ہے صبا دیدۂ نم میں
تنہائی چلی آئی تھی اک روز مرے گھر
اب خاک اڑاتی ہے اسی دشت الم میں
جو لوگ مجھے ڈھونڈھنے نکلے تھے انہیں اب
سب ڈھونڈھنے نکلے ہیں مرے نقش قدم میں
ہم کیسے یہاں خواب کے انبار لگاتے
آنکھیں تو لگا رکھی تھیں ویران شکم میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.