ٹہنی ٹہنی سے خون جاری ہے
ہم نے ایسے خزاں گزاری ہے
ایسا لگتا ہے نیلی جھیلوں کی
تیری آنکھوں سے رشتہ داری ہے
میں ہوں شاگرد اس لیے اس کا
عشق سب سے بڑا مداری ہے
خواب دیکھا کہ اک شجر ہوں میں
اور ترے ہاتھ میں اک آری ہے
میری تصویر کی طرف دیکھو
جس نے رو رو کے شب گزاری ہے
ایک چانٹا پڑا تو جانو گے
وقت کا ہاتھ کتنا بھاری ہے
روح کو دے کے نیند کی گولی
سیر اس کے بدن کی جاری ہے
میں ذرا پانی پی کے آتا ہوں
تری قربت بہت کراری ہے
ہر شکاری کی تاک میں بیٹے
کوئی اس سے بڑا شکاری ہے
کام اب وہ چراغ کر رہے ہیں
جو ہواؤں کی ذمہ داری ہے
اک دھماکہ ہوا ہے سینما میں
مر گئے لوگ فلم جاری ہے
جون صاحب مرے معاملے میں
ہجر میں بھی وصال طاری ہے
جا رہے ہیں خدا سے ملنے ہم
یہ زمیں تو بس اک سواری ہے
دل ہے تیری جدائی میں جیسے
کوئی ہارا ہوا جواری ہے
مار ڈالا ہے ایک کمسن نے
ہونٹ ہلکے ہیں بوسہ بھاری ہے
عام ہونے لگا ہے تھوڑا بہت
جو مرا دین تازہ کاری ہے
علی ارمانؔ کو سنبھال کے رکھ
یہ ترا آخری پجاری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.