تجلیوں کو بھی اندازۂ نظر نہ رہا
کچھ اعتبار ترا جلوۂ سحر نہ رہا
تصورات میں بھی اب وہ جلوہ گر نہ رہا
نظر وہی ہے مگر حاصل نظر نہ رہا
چمن میں آئی تھی کل جن کے دم قدم سے بہار
انہیں کا آج چمن پر کوئی اثر نہ رہا
لٹا ہے منزل مقصد پہ کارواں جب سے
مری نگاہ میں پھر کوئی راہبر نہ رہا
بہار میں اسے رنگ خزاں نظر آیا
جسے بہار میں احساس بال و پر نہ رہا
سکون دل کا ہو عالم کہ درد کی منزل
وہ کس فضا میں کہاں میرا ہم سفر نہ رہا
نہ شمع بزم کا جلوہ نہ رقص پروانہ
سحر کے بعد وہ ہنگامۂ سحر نہ رہا
گزر گئی بہت اچھی غم محبت میں
غم حیات کا بار اپنے دوش پر نہ رہا
فریب جلوہ نے کیا کر دیا نگاہوں کو
کہ اب نگاہ میں جلوہ بھی معتبر نہ رہا
نقاب رخ سے تم اپنے اٹھا تو لو گے مگر
نتیجہ کیا مجھے ہوش نظر اگر نہ رہا
نہ بے خودی کی فضا تھی نہ ہوش کا عالم
مگر میں فرض محبت سے بے خبر نہ رہا
میں سنگ در سے بھی اب بے نیاز ہوں ساجدؔ
جبین شوق پہ احسان سنگ در نہ رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.