تجدید ملاقات کی حسرت نہیں ہوتی
تجدید ملاقات کی حسرت نہیں ہوتی
ملتے ہیں مگر پہلی سی چاہت نہیں ہوتی
ہم اس کی ہر اک چال سمجھ جاتے ہیں پہلے
اب اس کی کسی چال پہ حیرت نہیں ہوتی
نا قابل تسلیم ہے اب اس کا چلن بھی
مشکل ہے کہ اس شخص سے نفرت نہیں ہوتی
سوچا ہے کئی بار کریں اس کی شکایت
کرتے ہیں شکایت تو شکایت نہیں ہوتی
معمول سا لگتا ہے ہمیں ہجر کا موسم
اب اس سے بچھڑتے ہوئے وحشت نہیں ہوتی
جن بچوں کو ماں باپ محبت نہیں دیتے
ان بچوں سے ماں باپ کی خدمت نہیں ہوتی
وہ مجھ کو ڈراتا ہے جدائی کی سزا سے
خود اس کو جدائی کی جسارت نہیں ہوتی
ہم ڈھونڈتے رہتے ہیں لڑائی کے بہانے
لیکن کبھی لڑنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی
اک حفظ مراسم کی روایت تھی گئی وہ
اب ترک تعلق پہ اذیت نہیں ہوتی
ہم اس کو بھلانے کے جتن کر تو چکے ہیں
اس طرح مگر ختم محبت نہیں ہوتی
وہ تم سے خفا ہے تو اسے خود ہی مناؤ
اپنوں کو منانے میں قباحت نہیں ہوتی
اب تیرے تحائف کو سنبھالا نہیں جاتا
ہم سے تری یادوں کی حفاظت نہیں ہوتی
جو مہر عنا گیر تھی وہ کٹ بھی چکی ہے
اب پچھلے پہر ترک رفاقت نہیں ہوتی
اک پل بھی ترے شہر میں رہنا ہوا مشکل
مشکل ہے کہ اب نقل سکونت نہیں ہوتی
ہم کوستے رہتے ہیں سلیمؔ اہل ہوس کو
کیوں ہم سے خلاف ان کے بغاوت نہیں ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.