تجدید رہ و رسم ملاقات بھی ہوتی
تجدید رہ و رسم ملاقات بھی ہوتی
وہ سامنے آتے تو کوئی بات بھی ہوتی
بے تیر و کماں جس نے زمانے کو کیا صید
اے کاش ہدف اس کا مری ذات بھی ہوتی
ہم پھر بھی نکلتے نہ سرابوں کے بھنور سے
اس دشت تپیدہ میں جو برسات بھی ہوتی
ممنون ہوں میں یوں بھی تری مرحمتوں کا
دامن کے ہی شایاں کوئی سوغات بھی ہوتی
آئینہ تری صبح درخشاں کو دکھاتا
خورشید بکف یوں ہی مری رات بھی ہوتی
اس بات کرم تک تو رسائی تھی یقینی
گر ساتھ کوئی شمع مناجات بھی ہوتی
وہ چاند سا پیکر کبھی آنگن میں اترتا
روشن یہ مری وادیٔ ظلمات بھی ہوتی
میں تیرے جوابات کا کچھ جائزہ لیتا
ہاتھوں میں اگر فرد سوالات بھی ہوتی
ہم کرتے شمار ان کا فرشتہ نفسوں میں
منسوب جو کچھ ان سے کرامات بھی ہوتی
پھر قسطوں میں ناصرؔ ہمیں مرنا نہیں پڑتا
حاصل جو یہاں تھوڑی مراعات بھی ہوتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.