تجربے کار تھے ہم ذہن میں جادہ رکھا
تجربے کار تھے ہم ذہن میں جادہ رکھا
زیر پا اپنے حوادث کو مبادا رکھا
یہ بتا ترک تعلق کا گنہ گار ہے کون
میں نے سوچا بھی نہیں تو نے ارادہ رکھا
مصلحت پیشہ ہر اک شخص مگر میری طرح
ذہن کو اپنے یہاں کس نے کشادہ رکھا
اس نے فائز کیے آقاؤں کے منصب پہ غلام
اور خود جسم پہ بوسیدہ لبادہ رکھا
شاہ کو علم تھا وہ شاہ بھی بن سکتا ہے
اس لیے فوج میں صرف اس کو پیادہ رکھا
مجھ کو یہ علم تھا وہ دوست نما دشمن ہے
اس لیے میں نے اسے یاد زیادہ رکھا
اس کی یادوں کی امانت ہے مرا دل انورؔ
یہ ورق وہ ہے ہمیشہ جسے سادہ رکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.