ٹکرا رہی ہیں تیز ہوائیں چٹان سے
ٹکرا رہی ہیں تیز ہوائیں چٹان سے
باہر نہ جاؤ اپنے شکستہ مکان سے
وہ رات بھر چراغ کی لو دیکھتا رہا
امکاں تراشتا ہے جو اپنے گمان سے
عزم سفر ہے دھوپ کا صحرا ہے اور میں
دریا تو ساتھ چھوڑ گیا درمیان سے
وہ موسم خزاں کی تھکن ہی میں جل گئے
باہر کھلے جو پھول ترے سائبان سے
اک عمر ہو گئی ہے کہ ڈرتا رہا ہوں میں
روشن چراغ سے کبھی اندھے مکان سے
گہرے سمندروں میں ستارہ نہ تھا کوئی
ساحل کی شام مل نہ سکی بادبان سے
دیوار آئنے کی ہے شیشے کے بام و در
لیکن غبار اٹھتا ہے میرے مکان سے
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 01.04.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.