طلب آسودگی کی عرصۂ دنیا میں رکھتے ہیں
طلب آسودگی کی عرصۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امید فصل گل ہے اور قدم صحرا میں رکھتے ہیں
ہوئے ہیں اس قدر مانوس ہم پیمان فردا سے
کہ اب دل کا سفینہ ہجر کے دریا میں رکھتے ہیں
بشر کو دیکھیے با ایں ہمہ ساحل پہ مرتا ہے
حباب اپنا اثاثہ سیل بے پروا میں رکھتے ہیں
ہمارے پاس کوئی گردش دوراں نہیں آتی
ہم اپنی عمر فانی ساغر و مینا میں رکھتے ہیں
ہمیں ہر گام پر ملتا رہا اعزاز محرومی
وقار اپنا بہت ہم دیدۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امیدوں کے کھنڈر مایوسیوں کے دم بخود سائے
بڑی ہی رونقیں ہم اس دل تنہا میں رکھتے ہیں
ہمارے دور کے انسان خود اپنی ہی ضد نکلے
طلب ماضی کی ہوتی ہے قدم فردا میں رکھتے ہیں
ظہیرؔ ان دل زدوں کی عظمتیں دیکھو یہ پروانے
چراغ عشق روشن وادی و صحرا میں رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.