تلف کرے گی کب تک آرزو کی جان آرزو
تلف کرے گی کب تک آرزو کی جان آرزو
تڑپ رہی ہے ہر طرف لہولہان آرزو
پھرا کے دیدۂ تپاں میں موم کے مجسمے
کہاں کہاں کرے گی دید کا زیان آرزو
ذرا سا ہاتھ کیا لگا حباب سا بکھر گیا
جسے سمجھ رہی تھی ایک آسمان آرزو
تو چشم ہی میں رہ اگر پسند ہے کشادگی
کہ دل ہے تنگ اور اس میں یک جہان آرزو
اسی کے ہیں سبب سے سب یہ ہجر کی صعوبتیں
کہاں سے آ گئی ہمارے درمیان آرزو
تو آفتاب ہے میں گل دعا ترے سکون کی
کسی کی شان قہر ہے کسی کی شان آرزو
الٰہی خیر اتنے سن پہ آندھیوں کی دوستی
ابھی تو سیکھ پائی بھی نہیں اڑان آرزو
شجر حجر زمین آسمان سب کو ضعف ہے
مگر یہ اک جوان کی رہی جوان آرزو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.