تلخیٔ نو شکرآمیز ہوئی جاتی ہے
تلخیٔ نو شکرآمیز ہوئی جاتی ہے
زندگی اور دل آویز ہوئی جاتی ہے
کس نے لفظوں پہ یہ چپکے سے کمندیں پھینکیں
جو زباں ہے وہ کم آمیز ہوئی جاتی ہے
دست قاتل میں نظر آتی ہے اک شاخ گلاب
زندگی پھر بھی تو خوں ریز ہوئی جاتی ہے
محمل وقت میں روشن ہیں فراست کے چراغ
پھر بھی اوہام کی لو تیز ہوئی جاتی ہے
جب سے گلفام نگارش ہوئے غالب کے خطوط
شاخ تحریر بھی گل ریز ہوئی جاتی ہے
تشنگی بن کے چھلک جائیں نہ الفاظ کہیں
گفتگو ہونٹوں پہ لبریز ہوئی جاتی ہے
اب دھندلکوں کے سہارے ہیں غنیمت مطربؔ
روشنی فطرت چنگیز ہوئی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.