تلخیوں کے شہر میں یوں نغمہ خواں کوئی تو ہو
تلخیوں کے شہر میں یوں نغمہ خواں کوئی تو ہو
دل ربا شیریں سخن شیریں زباں کوئی تو ہو
آب و گل کی تشنگی پر مہرباں کوئی تو ہو
رنگ و بو کی برہمی کا رازداں کوئی تو ہو
ڈوب جانے دو ابھرتا ہے نئے آفاق پر
صبح جس پر ہو فدا ایسا جہاں کوئی تو ہو
ہر نفس تازہ کسک تازہ جگر تازہ لہو
یاد کہتی ہے پرانی داستاں کوئی تو ہو
جاتے جاتے کہہ گئی کانوں میں کانٹوں کے بہار
پھول تو کھلتے رہیں گے پاسباں کوئی تو ہو
بام و در کی بے صدا بیگانگی ڈسنے لگی
ڈھونڈئیے ایسی جگہ اپنا جہاں کوئی تو ہو
آگہی تو سرحدوں کی قید سے آزاد ہے
لاکھ چاہے کم نگاہی آسماں کوئی تو ہو
خواہشوں میں مشورے ہیں اس بھرے بازار میں
دل اٹک جائے جہاں ایسی دکاں کوئی تو ہو
بات کہنے کا مزہ ہے بات سننے کا مزہ
ہم سخن کوئی تو ہوتا ہم زباں کوئی تو ہو
اپنی اپنی چاہتیں ہیں اپنی اپنی نعمتیں
ہم بھی چاہیں بجلیاں بھی آشیاں کوئی تو ہو
بے یقینی سے یقیں کو زندگی ملتی رہی
آگہی کی دلبری کا نغمہ خواں کوئی تو ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.