تمام عالم ہستی ہے اک نظر کا فریب
تمام عالم ہستی ہے اک نظر کا فریب
کبھی ہے شام کا دھوکا کبھی سحر کا فریب
نہ کھائیں گے کبھی دنیا کے مال و زر کا فریب
جو کھا چکے ہیں تری چشم عشوہ گر کا فریب
اڑے چمن سے تو اڑ کر قفس نصیب ہوئے
یہ جانتے تو نہ ہم کھاتے بال و پر کا فریب
ہم اور بڑھ گئے کچھ دور تیری منزل سے
یہ ہم سفر کا فسوں تھا کہ راہبر کا فریب
ٹھہر گئے دم رخصت بہ خوف بارش و برق
وہ کھا گئے دل بیتاب و چشم تر کا فریب
ہر ایک گام پہ تو نے بٹھا دئے رہزن
پھر اس پہ حکم ہے کھانا نہ رہ گزر کا فریب
پہنچ گیا ترے ہم نام کے یہاں شاید
بتا رہا ہے خط ناز نامہ بر کا فریب
تمہارے جلوۂ روشن کی ہے یہ تابانی
نہ کھاؤ وصل کی شب تابش سحر کا فریب
کسی کے جلوۂ اول نے وہ ستم ڈھائے
کہ ہم نہ کھائیں گے اب جلوۂ دگر کا فریب
قدم تو تیز ہیں منزل مگر ہنوز ہے دور
ہر ایک گام پہ کھاتے ہیں ہم سفر کا فریب
امید وصل میں کاٹی تمام رات ولیؔ
سحر ہوئی تو کھلا لعل حیلہ گر کا فریب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.