تمام دن مجھے کیف شراب رہتا ہے
تمام دن مجھے کیف شراب رہتا ہے
بلند چار پہر آفتاب رہتا ہے
کھلا یہ وعدۂ فردا اے حشر سے ہم کو
کہیں بھی حسن میان نقاب رہتا ہے
ترے گلے کو کہوں کس طرح بہشت اے حور
یہاں تو جان پہ ہر دم عذاب رہتا ہے
وہ عاشقوں کو برابر کہاں سمجھتے ہیں
کسی پہ لطف کسی پر عتاب رہتا ہے
تری تلاش میں جو کوئی سریع السیر
کب ایک جا صفت ماہتاب رہتا ہے
غرور بدر کو کیا ہو کمال پر اپنے
جہاں میں کس کا ہمیشہ شباب رہتا ہے
مری طرف سے وہ کروٹ بدل سکے سوتے میں
وصال میں بھی مجھے اضطراب رہتا ہے
غش آتے ہیں مجھے پیہم فراق ساقی میں
عوض شراب کے خم میں گلاب رہتا ہے
زمانۂ وصل تو فرقت بھی کوئی دم کی ہے
ہر ایک شے کو یہاں انقلاب رہتا ہے
تمہاری عارض رنگیں کو جب سے دیکھا ہے
چمن میں زرد گل آفتاب رہتا ہے
وہ بحر حسن ہے جیسے کنارہ کش ہم سے
دم اپنی آنکھوں میں شکل حباب رہتا ہے
مرا شباب کا پیری میں بھول جاتا ہے
سحر کو یاد بھلا کب یہ خواب رہتا ہے
ہوش جس کے ہی دیر و حرم میں لوگوں کو
ہمارے دل میں وہ خانہ خراب رہتا ہے
وصال میں ہو مزہ کیوں نہ بادہ خواری کا
ہمیں لحاظ نہ ان کو حجاب رہتا ہے
یہ دور بادہ ہے امسال بزم عالم میں
کہ دست کیفؔ میں جام شراب رہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.