تمام جسم ہی گھائل تھا گھاؤ ایسا تھا
تمام جسم ہی گھائل تھا گھاؤ ایسا تھا
کوئی نہ جان سکا رکھ رکھاؤ کیسا تھا
بس اک کہانی ہوئی یہ پڑاؤ ایسا تھا
مری چتا کا بھی منظر الاؤ ایسا تھا
وہ ہم کو دیکھتا رہتا تھا ہم ترستے تھے
ہماری چھت سے وہاں تک دکھاؤ ایسا تھا
کچھ ایسی سانسیں بھی لینا پڑیں جو بوجھل تھیں
ہوا کا چاروں طرف سے دباؤ ایسا تھا
خریدتے تو خریدار خود بھی بک جاتے
تپے ہوئے کھرے سونے کا بھاؤ ایسا تھا
ہیں دائرے میں قدم یہ نہ ہو سکا محسوس
رہ حیات میں یارو گھماؤ ایسا تھا
کوئی ٹھہر نہ سکا موت کے سمندر تک
حیات ایسی ندی تھی بہاؤ ایسا تھا
بس اس کی مانگ میں سندور بھر کے لوٹ آئے
ہمارے اگلے جنم کا چناؤ ایسا تھا
پھر اس کے بعد جھکے تو جھکے خدا کی طرف
تمہاری سمت ہمارا جھکاؤ ایسا تھا
وہ جس کا خون تھا وہ بھی شناخت کر نہ سکا
ہتھیلیوں پہ لہو کا رچاؤ ایسا تھا
زباں سے کچھ نہ کہوں گا غزل یہ حاضر ہے
دماغ میں کئی دن سے تناؤ ایسا تھا
فریب دے ہی گیا نورؔ اس نظر کا خلوص
فریب کھا ہی گیا میں سبھاؤ ایسا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.