طنابیں کٹنے لگیں میری خوش بیانی کی
طنابیں کٹنے لگیں میری خوش بیانی کی
کہ اب وہ رت ہی نہیں تیری مہربانی کی
ڈبو دیا ہے مجھے میری خوش یقینی نے
یہ بات غور طلب ہے مری کہانی کی
خزاں میں ہجر کی ڈوبا وصال کا موسم
مگر ہے ذہن میں خوشبو سی رات رانی کی
کبھی تو آئے گا ساحل تری رفاقت کا
ابھی میں بیٹھا ہوں کشتی میں بد گمانی کی
شگفتہ لہجے میں وہ مجھ سے بولتا ہی نہیں
جہاں میں دھوم سی ہے جس کی خوش بیانی کی
کلی چٹک اٹھی ماحول ہو گیا گل بیز
جو بات آئی کبھی اس کی خوش بیانی کی
گلاب چہرے امیدوں کے بجھ گئے مہدیؔ
نہ بات کیجیئے موسم کی مہربانی کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.