تنہا ہر ایک رہ سے گزر جانا چاہیے
تنہا ہر ایک رہ سے گزر جانا چاہیے
جیسے جیے ہیں ویسے ہی مر جانا چاہیے
جانے یہ دل کا درد کہاں تک ستائے گا
دریا چڑھے تو اس کو اتر جانا چاہیے
بجھ کر وجود شعلہ سلگتا ہے کس لیے
میں راکھ ہوں تو مجھ کو بکھر جانا چاہیے
آوارگی میں کب سے گزرتی ہے رات بھی
آخر کبھی تو شام کو گھر جانا چاہیے
اے دوستو کھڑے ہو مرے گرد کس لیے
کوئی بتاؤ مجھ کو کدھر جانا چاہیے
ہر جلوۂ جمال سے تنگ آ چکا ہے جی
اک روز زندگی سے بھی بھر جانا چاہیے
جمشیدؔ سن رہے ہو سفر کی پکار کیا
طوفاں کو یوں نہ رہ میں ٹھہر جانا چاہیے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 577)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.