تنہا قمر کو چھوڑ کے تارے چلے گئے
تنہا قمر کو چھوڑ کے تارے چلے گئے
غربت میں جیسے یار ہمارے چلے گئے
ہم زندگی کو ایسے گزارے چلے گئے
جیسے کہ کوئی قرض اتارے چلے گئے
تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا
خوش قسمتی کے سارے ستارے چلے گئے
جو پھل گرے زمیں پہ وہ یاروں نے چن لیے
ہم پتھروں کو پیڑ پہ مارے چلے گئے
اس نے بڑے فریب سے ہر شرط جیت لی
ہم بھی بڑے خلوص سے ہارے چلے گئے
اب موسم بہار بھی دینے لگا فریب
آنکھوں کی تاب لے کے نظارے چلے گئے
وہ کیا گئے کہ غزلیں بھی بے جان ہو گئیں
سب رمز سب کنائے اشارے چلے گئے
اس سے زیادہ ہم سے تعیش نہ ہو سکا
گاؤں گئے تو نہر کنارے چلے گئے
منظر کشی کچھ ایسی کی واعظ نے حشر کی
مسجد کو ہم بھی خوف کے مارے چلے گئے
ان کی جفا وفا میں نہ تبدیل ہو سکی
ہم جان و دل کی نذر گزارے چلے گئے
آنکھیں کھلیں تو دھوپ تھی ہر سو وہی صہیبؔ
خوابوں کے سب حسین نظارے چلے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.