تنہائی کا زخم تھا کیسا سناٹوں نے بھرا نمک
تنہائی کا زخم تھا کیسا سناٹوں نے بھرا نمک
ایسا چھلکا زخم کہ سارا پلکوں سے بہہ گیا نمک
حلوے مانڈے سب میٹھے تھے کھا پی کر وہ بھول گئے
تلخ عناصر کا سنگم تھا رگ رگ میں رہ گیا نمک
زخموں کے گل کیا دھوئے گی رت رسیا برسات جہاں
ہر موسم ہر آن بکھیرے چلتی پھرتی ہوا نمک
انگڑائی کی محرابوں میں رنگ دھنک وہ کیوں نہ بھریں
جن کی ہر ہر بات رسیلی جن کی ہر ہر ادا نمک
لیکھ لفافے سے باہر تھا سرخی تھی مضمون بکف
مسک گئیں میٹھی مسکانیں ہونٹ کھلے اور گرا نمک
جانے کیا کیا عکس اگلتے کھل کر دھندلے آئینے
اٹے ہوئے زخموں پر راہیؔ کون چھڑکتا کھرا نمک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.