تنظیم دہر کی تو سہی خیر و شر کے ساتھ
تنظیم دہر کی تو سہی خیر و شر کے ساتھ
لیکن خطا و سہو لگا کر بشر کے ساتھ
فطرت کا یہ مذاق تو دیکھو بشر کے ساتھ
اک حسن معتبر بھی ہے نا معتبر کے ساتھ
خورشید کو چمن میں گوارا نہ ہو سکیں
شبنم کی ضو فشانیاں نور سحر کے ساتھ
ہر صبح کی نمود امانت ہے شام کی
یہ درد ہجر ختم نہ ہوگا سحر کے ساتھ
کچھ راز حسن و عشق بھی دنیا پہ ہو عیاں
آؤ نظر ملاؤ ہماری نظر کے ساتھ
وہ خوش نصیب ہے جسے تو نے عطا کیا
سوز تمام زندگیٔ مختصر کے ساتھ
گہرائیوں سے جس کا تعلق نہ درد سے
ایسی دعا کو ربط نہیں ہے اثر کے ساتھ
تم لاکھ بے نیاز رہو ہم نے پا لیا
وہ ربط خاص جو ہے نظر کو نظر کے ساتھ
یہ بات دوسری ہے کہ منزل نہ پا سکے
چل تو رہے ہیں آج بھی ہم راہبر کے ساتھ
کیوں منفعل ہوں زحمت چارہ گری سے ہم
اب روح کو قرار ہے درد جگر کے ساتھ
میرا وجود وہم تو فرد عمل بھی وہم
میں کب حریم ذات میں تھا خیر و شر کے ساتھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.