ٹپکتا ہے مرے اندر لہو جن آسمانوں سے
ٹپکتا ہے مرے اندر لہو جن آسمانوں سے
کوئی تو ربط ہے ان کا زمیں کی داستانوں سے
دھواں اٹھنے لگا جب سنگ مرمر کی چٹانوں سے
ستاروں نے ہمیں آواز دی کچے مکانوں سے
سمندر کے پرندو ساحلوں کو لوٹ بھی جاؤ
بہت ٹکرا لیے ہو تم ہمارے بادبانوں سے
وہ اندر کا سفر تھا یا سراب آرزو یارو
ہمارا فاصلہ بڑھتا گیا دونوں جہانوں سے
لچکتے بازوؤں کا لمس تو پر کیف تھا طلعتؔ
مگر واقف نہ تھے ہم پتھروں کی داستانوں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.