تقاضے ہیں شاید یہی آج کل کے
تقاضے ہیں شاید یہی آج کل کے
بہاروں میں رکھ دیں گلوں کو مسل کے
مری تلخ تھی مسکراہٹ کچھ ایسی
غم زندگی رہ گیا ہاتھ مل کے
ہمیں کیا ڈراتے ہو مٹنے کے ڈر سے
زمانہ نہ رکھ دے تمہیں خود کچل کے
فضا میں یہ دھیمی سی آہٹ ہے کیسی
صبا ہے کہ ان کے قدم ہلکے ہلکے
یہ دل ہے شکستہ امیدوں کی بستی
یہاں آئیے گا سنبھل کے سنبھل کے
عجب ہے یہ دنیا عجب اس کی رسمیں
کہیں پر اجالے کہیں پر دھندلکے
نہ کی میں نے تقلید شیخ و برہمن
خدا مل گیا اس بھنور سے نکل کے
سنا ہے بہشت زمیں میکدہ ہے
چلو طاہرہؔ دیکھ لیں کیوں نہ چل کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.