تقدیر بدلنی نا ممکن بندے سے خدائی کیا ہوگی
تقدیر بدلنی نا ممکن بندے سے خدائی کیا ہوگی
جیسی ہے گزرنی گزرے گی دشمن سے برائی کیا ہوگی
جب فصل بہاراں آئی تھی خوشیوں میں پرندے گاتے تھے
گلشن میں خزاں کا عالم ہے اب نغمہ سرائی کیا ہوگی
بے عقل ہیں وہ نادان ہیں وہ جو آس لگائے بیٹھے ہیں
جب خود نہ سدھاریں حال اپنا اوروں سے بھلائی کیا ہوگی
رک جاتے ہیں دل ہی دل میں مرے کیا خاک بلندی پر پہنچیں
نالے نہ زباں تک آتے ہیں تا عرش رسائی کیا ہوگی
محنت سے بچاتے ہیں دامن پیری پہ اتر آئے ہیں شیخ
آسان کمائی ہاتھ لگی دشوار کمائی کیا ہوگی
بچنے کی نہیں صورت اے دل بے کار ہیں تیری تدبیریں
نظروں سے تحفظ کیا ہوگا زلفوں سے رہائی کیا ہوگی
کیا خوب نبھائی شرط وفا برترؔ کو اکیلا چھوڑ گئے
روپوش ہوئے ہو زیر لحد اب جلوہ نمائی کیا ہوگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.