تقصیر کیا ہے حسرت دیدار ہی تو ہے
تقصیر کیا ہے حسرت دیدار ہی تو ہے
پاداش اس کی حسن کا پندار ہی تو ہے
کیا پوچھتے ہو میرا فسانہ نیا نہیں
کیا دیکھتے ہو عشق سر دار ہی تو ہے
بند قبا چٹکتا ہوا غنچۂ گلاب
پہلوئے یار نکہت گلزار ہی تو ہے
ہمسائیگی میں اس کی ہے کیا لطف ان دنوں
لیکن یہ لطف سایۂ دیوار ہی تو ہے
اے باغباں بنام بہاراں نہ چھیڑ اسے
گلزار میں محافظ گل خار ہی تو ہے
ساز حیات ہم نفسو خوب ہے مگر
کب ٹوٹ جائے سانس کا اک تار ہی تو ہے
میں تنگ ہوں سکون سے اب اضطراب دے
بے انتہا سکون بھی آزار ہی تو ہے
خود جس میں کچھ نہ پایا نہ اوروں کو کچھ دیا
فی الاصل ایسی زندگی بیکار ہی تو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.