ترشے ہوئے گلاب کے پیکر کو کیا لکھوں
ترشے ہوئے گلاب کے پیکر کو کیا لکھوں
کانٹے مجھے بتائیں گل تر کو کیا لکھوں
ہریالیوں کی فصل ہے محرومیوں کے دن
سبزہ ہوئی زمین تو بنجر کو کیا لکھوں
ہونٹوں کی نرمیوں پہ وہ لہجے کی سختیاں
لکھوں اسے گلاب تو پتھر کو کیا لکھوں
جب منہ کے بول سینے میں نشتر چبھو گئے
میں سوچتا ہوں ہاتھ کے خنجر کو کیا لکھوں
سایہ کہاں سے آئے کہ دیوار بھی نہیں
آوارگی کے عہد میں بے گھر کو کیا لکھوں
چھوٹے بڑے کا فرق ضروری سہی مگر
اک بوند ہی بہت ہے سمندر کو کیا لکھوں
جب نیند آئی ہاتھ کو تکیہ بنا لیا
میں ایسے بادشاہ کے بستر کو کیا لکھوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.