تصور کار فرما تھا کہ لذت تھی کہانی کی
تصور کار فرما تھا کہ لذت تھی کہانی کی
اسی تصویر نے آنکھوں پہ جیسے حکمرانی کی
مری پرواز کا منظر ابھی تیروں سے چھلنی ہے
لہو میں تر بہ تر ہے داستاں نقل مکانی کی
لبوں پر برف جم جائے تو استفسار کیا معنی
کہ شور و غل فقط تمہید ہے شعلہ بیانی کی
قدم رکھتے ہی جیسے کھل گیا دلدل میں دروازہ
عجب کاری گری دیکھی یہاں مٹی میں پانی کی
دکھائی راہ ساحل کی انہیں پر پیچ موجوں نے
اسی طوفان نے کشتی کے حق میں بادبانی کی
بہت زرخیز مٹی ہے نظامؔ اپنے بدن میں بھی
ہوس نے پھول مہکائے لہو نے باغبانی کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.