تصور کو صورت میں لایہ گیا ہے
تصور کو صورت میں لایہ گیا ہے
جو پردہ تھا حائل اٹھایا گیا ہے
فریب نظر کی ہیں رنگینیاں سب
جو کثرت کو وحدت میں پایہ گیا ہے
درون مکاں اک مکیں کا نہ ملنا
یہی راز تھا جو چھپایا گیا ہے
دھواں دل سے اٹھے تو یہ جان لینا
چراغ سحر تھا بجھایا گیا ہے
اک آواز ہے رہزن ہوش و تمکیں
کوئی راگ اس دھن پہ گایا گیا ہے
یہ کاکل بھی سرگوشیاں کر رہا ہے
اسے کس لئے سر چڑھایا گیا ہے
غزل کہنے کی تاب کس میں تھی سرورؔ
جو تھا دل میں وو لب پہ لایا گیا ہے
- کتاب : غزل اس نے چھیڑی-6 (Pg. 171)
- Author : فرحت احساس
- مطبع : ریختہ بکس ،بی۔37،سیکٹر۔1،نوئیڈا،اترپردیش۔201301 (2019)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.