تصور میں مرے ایسے کوئی چہرہ نکلتا ہے
تصور میں مرے ایسے کوئی چہرہ نکلتا ہے
کہ سوکھی شاخ پر جیسے ہرا پتہ نکلتا ہے
فرشتے گھر کی چوکھٹ پر کھڑے رہتے ہیں صف باندھے
کہ جب اسکول کو گھر سے کوئی بچہ نکلتا ہے
زمیں بھی جیسے میرا امتحاں لینے کے در پے ہے
جدھر پاؤں بڑھاتا ہوں ادھر صحرا نکلتا ہے
حقیقت ان کی جو بھی ہو عقیدہ ہے یہی اپنا
انہیں خوابوں سے منزل کے لیے رستہ نکلتا ہے
سفر سورج کا مجھ کو جب کبھی درپیش آ جائے
تو میرا ہم سفر بن کر مرا سایہ نکلتا ہے
کرے گی منفعت حاصل اسی سے فصل مستقبل
ہماری ذات سے جو یہ سخن دریا نکلتا ہے
مجھے میری نظر میں معتبر کرتا ہے وہ پیہم
مرا دشمن مرے حق میں صدا سچا نکلتا ہے
ہماری پیاس سچی ہے ہم اسماعیل والے ہیں
جہاں ایڑی رگڑ دیں ہم وہیں دریا نکلتا ہے
ذلیل و خوار ہوتے ہیں عبیدؔ باخبر لوگو
محبت کا مگر سر سے کہاں سودا نکلتا ہے
- کتاب : سخن دریا (Pg. 52)
- Author : عبید الرحمن
- مطبع : عرشیہ پبلی کیشن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.