تصورات کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں
تصورات کی دنیا سجائے بیٹھے ہیں
کسی کی آس کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں
فریب عمر دو روزہ کا کھائے بیٹھے ہیں
بتائیں کیا کہ جو صدمہ اٹھائے بیٹھے ہیں
نہ جانے کس گھڑی آ جائیں ڈھونڈتے ہم کو
چراغ دن میں بھی در پر جلائے بیٹھے ہیں
سنا ہے جب سے دعائیں قبول ہوتی ہیں
دعا کو ہاتھ ہم اپنے اٹھائے بیٹھے ہیں
وہ آ رہے ہیں کوئی کہہ رہا ہے کانوں میں
چراغ دید کا ہم تو بجھائے بیٹھے ہیں
غریب خانے کی ساری فضا معطر ہے
یہ لگ رہا ہے وہ آئے ہیں آئے بیٹھے ہیں
نہ پوچھ کیسے شب انتظار گزری ہے
نہ چھیڑ ہم کو صبا ہم ستائے بیٹھے ہیں
خبر کہاں ہے زمانے کی سوزؔ ہم اس کو
کسی کے عشق میں خود کو بھلائے بیٹھے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.