طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے
دلچسپ معلومات
(6جون 1958ء )
طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے
ہاں تری زلف گرہ گیر سے جی ڈرتا ہے
دل تو قائل ہے ترے لطف و کرم کا لیکن
اپنی پھوٹی ہوئی تقدیر سے جی ڈرتا ہے
آپ کی چپ سے الجھتی ہے طبیعت اکثر
آپ کی شوخیٔ تقریر سے جی ڈرتا ہے
کہیں یہ بھی نہ ہو منشائے مشیت کے خلاف
اب تو ہر سعی سے تدبیر سے جی ڈرتا ہے
پہلے جو حرف بصد شوق زباں پر آیا
اب اسی حرف کی تفسیر سے جی ڈرتا ہے
منہ سے بولے نہ کبھی سر سے جو کھیلے نہ کبھی
تجھ سے بڑھ کر تری تصویر سے جی ڈرتا ہے
اس کا انجام بھی آخر کہیں تخریب نہ ہو
اس لئے ہر نئی تعمیر سے جی ڈرتا ہے
پہلے کچھ خواب تھے ایسے کہ تھے دہشت کا سبب
اب تو ہر خواب کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے
عمر کی عمر گناہوں میں بسر کر ڈالی
اور اب آپ کا تعزیر سے جی ڈرتا ہے
صبر پڑ جائے نہ تجھ پر کہیں مظلوموں کا
ان کی فریاد کی تاثیر سے جی ڈرتا ہے
اس کے پردے میں بڑی تیرگیاں ہیں طالبؔ
اس لئے کثرت تنویر سے جی ڈرتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.