تیرا خیال تھا کہ یوں ہی بد گمان تھے
تیرا خیال تھا کہ یوں ہی بد گمان تھے
اپنے بھی کچھ اصول مگر درمیان تھے
شاخیں ہر ایک رات یوں ہی چیختی رہیں
وہ پھول ہی بکے تھے جو زیب دکان تھے
اس نے ازل سے بھینچ کے رکھی تھی مٹھیاں
ہاتھوں کی ہر لکیر کے ہم ترجمان تھے
سوچوں کی موج موج بہا لے گئی انہیں
سانسوں کی گرم ریت پہ جن کے مکان تھے
پورس کے ہاتھیوں کے سبھی گول کٹ گئے
جذبے مرے خلوص کے روشن چٹان تھے
جانے وہ چور آ کے کدھر مڑ گیا بہارؔ
دہلیز تک تو پاؤں کے واضح نشان تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.