تیرے غم کا تدارک کیا تو ہمیں شرم آ جائے گی اور مر جائیں گے
تیرے غم کا تدارک کیا تو ہمیں شرم آ جائے گی اور مر جائیں گے
خواب آور دوا ہم نے لے لی تو پھر نیند کے کذب سے زخم بھر جائیں گے
ساعتیں بے ثباتی کی اولاد ہیں اور صیاد ہیں اس لیے آؤ ہم
وقت کو توڑ دیں ورنہ سب کام کی راتیں ڈھل جائیں گی دن گزر جائیں گے
تم یوں ہی عشق کے زور پر خود کو رکھے رہو اور ہنستے سنورتے رہو
دیکھنا ایک دن ہم کسی موڑ پر اپنے ہم زاد کو زیر کر جائیں گے
رنجشیں دل میں رکھنا بری بات ہے کیوں نہ پھر ابتدا سے محبت کریں
آؤ پہلے سنواریں شب غم کو ہم وقت ہوگا تو خود بھی سنور جائیں گے
یہ کوئی بات ہے اتنی پھیلی ہوئی زندگی میں فقط اک ترا انتظار
منتظر تو ترے ہم رہیں گے مگر کیسے کیسے ہمارے سفر جائیں گے
اجنبی پن کی لو سے نکلتی ہوئی آشنائی کی لرزاں تپش اور ہم
ایسا لگتا ہے گویا جھجھکتے ہوئے دوسرے خواب میں پھر اتر جائیں گے
کار دنیا کریں کچھ عداوت تو ہو ٹک طبیعت بدلنے کی صورت تو ہو
ہم اگر خود سے لڑتے جھگڑتے رہے زندگی کے عناصر بکھر جائیں گے
پہلے تو شہر میں اتنے رستے نہ تھے اتنی گلیاں نہ تھیں موڑ اتنے نہ تھے
ہم اکیلے کھڑے ہیں پریشان ہیں اور آگے بڑھے تو کدھر جائیں گے
پھر اچانک ہی ہم عمر کے ناتواں ہاتھ میں آئنہ دیکھ کر رو پڑے
آج تک بس یہی سوچ کر خوش رہے وہ بلائے گا ہم اس کے گھر جائیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.