تیری باتوں کا رس اداسی ہے
میرے دامن میں بس اداسی ہے
دوسرا جسم ہے یہ مٹی کا
میرا پہلا قفس اداسی ہے
دھڑکنیں کارواں خرابوں کا
ان کی ہر اک جرس اداسی ہے
مضمحل ہوں بڑے دنوں سے میں
مجھ کو بانہوں میں کس اداسی ہے
ابن آدم کے غم بتاتے ہیں
کیسی کہنہ نفس اداسی ہے
کیا دکھاتا کسی مسیحا کو
میں تو سمجھا تھا بس اداسی ہے
دن خوشی کے نکال کر دیکھے
عمر کا ہر برس اداسی ہے
دل کا اخترؔ مزار سینے میں
غم ہے گنبد کلس اداسی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.