تیری محفل سے میں کیا جاتا ہوں
دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
میں رفو گر کے اشارے پر ہوں
چاک داماں ہوں سیا جاتا ہوں
دیکھ کر مجھ کو یوں نالاں مت ہو
تو کہے تو میں چلا جاتا ہوں
تیرے کوچے سے گزر ہوتا ہے
آپ ہی آپ رکا جاتا ہوں
جرم کیا ہے یہ تو معلوم نہیں
پس دیوار چنا جاتا ہوں
بھیک مانگی ہے محبت کی مگر
اپنی نظروں میں گرا جاتا ہوں
عہد کرتا ہوں بھلانے کا تجھے
پھر تری باتوں میں آ جاتا ہوں
میں سخن تیرا نہیں ہوں پھر بھی
تیرے شعروں میں پڑھا جاتا ہوں
آرزو چاند ستاروں کی ہے
آسمانوں میں اڑا جاتا ہوں
اس نے ساون کی تمنا کی ہے
اپنی آنکھوں سے بہا جاتا ہوں میں
اس قدر راس ہے تنہائی مجھے
اپنے سائے سے جدا جاتا ہوں
لوگ پاگل تو سمجھتے ہوں گے
میں جو بے وقت ہنسا جاتا ہوں
وہ کہیں اور سے دیتا ہے صدا
میں کہیں اور چلا جاتا ہوں
دے کے لالچ ترے خوابوں کا میں
اپنی آنکھوں کو سلا جاتا ہوں
غیر پھر غیر ہیں کیا کیجے گلہ
دھوکہ اپنوں سے ہی کھا جاتا ہوں
آگ خود دل میں لگا رکھی ہے
اپنے ہاتھوں ہی جلا جاتا ہوں
زندہ رہنے کی وجہ صرف ہے تو
تیرے وعدوں پہ جیا جاتا ہوں
ایک دیوار اٹھانے کے لئے
ایک دیوار گرا جاتا ہوں
توڑا جاتا ہے مجھے روز فہیمؔ
روز تعمیر کیا جاتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.