تیری نگاہ لطف بھی ناکام ہی نہ ہو
تیری نگاہ لطف بھی ناکام ہی نہ ہو
دل تو وہ زخم ہے جسے آرام ہی نہ ہو
چونکا ہوں نیم شب بھی یہی سوچ سوچ کر
وہ آفتاب اب بھی لب بام ہی نہ ہو
تم جس کو جانتے ہو فقط اپنی طبع خاص
وہ رنج وہ فسردہ دلی عام ہی نہ ہو
آہستہ اس لرزتے ہوئے پل پہ رکھ قدم
صدیوں کا انہدام ترے نام ہی نہ ہو
اے دل مفر تو کار جہاں سے نہیں مگر
اتنا تو کر کہ اس میں سبک گام ہی نہ ہو
دستک سی دے رہی ہے دریچے پہ باد صبح
اے محو خواب سن کوئی پیغام ہی نہ ہو
خورشیدؔ تو نے کیسے نبھائیں یہ عزلتیں
جیسے تجھے کسی سے کوئی کام ہی نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.