تھا ایک سایہ سا پیچھے پیچھے جو مڑ کے دیکھا تو کچھ نہیں تھا
تھا ایک سایہ سا پیچھے پیچھے جو مڑ کے دیکھا تو کچھ نہیں تھا
اختر ہوشیارپوری
MORE BYاختر ہوشیارپوری
تھا ایک سایہ سا پیچھے پیچھے جو مڑ کے دیکھا تو کچھ نہیں تھا
اب اپنی صورت کو دیکھتا ہوں کبھی جو صد پیکر آفریں تھا
وہ پھر بھی جاں سے عزیز تر تھا طبیعتیں گو جدا جدا تھیں
اگرچہ ہم زاد بھی نہیں تھا وہ میرا ہم شکل بھی نہیں تھا
میں رک سکوں گا ٹھہر سکوں گا تھکن سفر کی مٹا سکوں گا
کہیں تو کوئی شجر ملے گا تمام رستے یہی یقیں تھا
کئی چٹانیں گداز جسموں میں اپنی گرمی سے ڈھل گئی تھیں
بتوں کے قصے میں تیشہ کاروں کا تذکرہ بھی کہیں کہیں تھا
نہ جانے کیا دھند درمیاں تھی کہ کوہ کن کی نظر نہ پہنچی
جہاں سے پھوٹا تھا چشمۂ ماہ شب کا پتھر بھی تو وہیں تھا
میں اپنی آواز کے تعاقب میں ماورائے نظر بھی پہنچا
مگر پلٹ کر نہ اس نے پوچھا کہ میں خلا کے بہت قریں تھا
وہی مناظر لٹے لٹے سے وہی شکستہ مکان اخترؔ
میں روزمرہ کے راستے سے جو گھر میں پہنچا بہت حزیں تھا
- کتاب : Dariche (Pg. 12)
- Author : Bashir Saifi
- مطبع : Shakhsar Publishers (1975)
- اشاعت : 1975
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.