ٹھہرا ہوا آنکھوں میں جو سیلاب ضیا تھا
ٹھہرا ہوا آنکھوں میں جو سیلاب ضیا تھا
یہ پچھلے پہر کون تھا تم تھے کہ خدا تھا
مدت سے تو اب یاد بھی آتی نہیں اس کی
یہ نور سا لیکن مرے غم خانے میں کیا تھا
میں اور ترے شعلۂ رخ کو کروں بدنام
کہہ دوں گا کہ یہ ہاتھ تو ویسے ہی جلا تھا
ماتم ہے دم صبح جو لہروں کی زباں پر
یہ آخر شب کون سمندر میں گرا تھا
اب اہل گلستاں کو یقیں آئے نہ آئے
اک پھول تو دامن میں ہمارے بھی کھلا تھا
حالات نے تنہا مجھے اس درجہ کیا ہے
باور نہیں ہوتا کہ کبھی تو بھی ملا تھا
پلکوں پہ مہکتے تھے ادھر پھول لہو کے
اے نورؔ ادھر مشغلۂ شوق حنا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.