ٹھہرے جو کہیں آنکھ تماشا نظر آئے
دلچسپ معلومات
(شب خون، الہ آباد)
ٹھہرے جو کہیں آنکھ تماشا نظر آئے
سورج میں دھواں چاند میں صحرا نظر آئے
رفتار سے تابندہ امیدوں کے جھروکے
ٹھہروں تو ہر اک سمت اندھیرا نظر آئے
سانچوں میں ڈھلے قہقہے سوچی ہوئی باتیں
ہر شخص کے کاندھوں پہ جنازہ نظر آئے
ہر راہ گزر راستہ بھولا ہوا بالک
ہر ہاتھ میں مٹی کا کھلونا نظر آئے
کھوئی ہیں ابھی میں کے دھندلکوں میں نگاہیں
ہٹ جائے یہ دیوار تو دنیا نظر آئے
جس سے بھی ملیں جھک کے ملیں ہنس کے ہوں رخصت
اخلاق بھی اس شہر میں پیشہ نظر آئے
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 78)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.