ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے
ٹھہرے پانی کو وہی ریت پرانی دے دے
میرے مولا مرے دریا کو روانی دے دے
آج کے دن کریں تجدید وفا دھرتی سے
پھر وہی صبح وہی شام سہانی دے دے
تیری مٹی سے مرا بھی تو خمیر اٹھا ہے
میری دھرتی تو مجھے میری کہانی دے دے
وہ محبت جسے ہم بھول چکے برسوں سے
اس کی خوشبو ہی بطور ایک نشانی دے دے
تپتے صحراؤں پہ ہو لطف و کرم کی بارش
خشک چشموں کے کناروں کو بھی پانی دے دے
دیدہ و دل جسے اب یاد کیا کرتے ہیں
وہی چہرہ وہی آنکھیں وہ جوانی دے دے
جس کی چاہت میں حسنؔ آنکھیں بچھی جاتی ہیں
میری آنکھوں کو وہی لعل یمانی دے دے
- کتاب : Mujalla Dastavez (Pg. 163)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.