تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
یا رب کہیں وہ غفلت فریاد بے کساں ہو
یا قہر ہے وہ شوخی یا پردہ ہے نظر کا
دل میں تو اس کا گھر ہو اور آنکھ سے نہاں ہو
یہ شور بھر رہا ہے فریاد کا جہاں میں
جو بات لب پہ آئی الٹی پھری فغاں ہو
کس کس دعا کو مانگیں کیا کیا ہوس نکالیں
اک جاں کدھر کدھر ہو اک دل کہاں کہاں ہو
برگشتگیٔ قسمت یہ چھیڑ کیا نکالی
جو مدعائے دل ہو وہ مدعیٔ جاں ہو
مقدور تک تو اپنے تجھ سے نبھائیں گے ہم
بے جان و دل ہیں حاضر گر قصد امتحاں ہو
صیاد میں نہیں ہوں گم کردہ آشیاں ہوں
اے ہم صفیرو بولو کس جا ہو اور کہاں ہو
اے آہ دل سے اٹھ کر لب پر ہے کیا تأمل
جا شورش زمیں ہو آشوب آسماں ہو
مٹ مٹ کے بھی ہمارا اک بن رہے گا ساماں
اجڑے اگر بہاراں آبادیٔ خزاں ہو
جب بیٹھنے پہ آئے اے ضعف بیٹھ رہیے
پھر کیا ہے یہ تکلف اس کا ہی آستاں ہو
تو ہی رہے گی بلبل یا میں ہی اس چمن میں
یا تیرا ہی ہو قصہ یا میری داستاں ہو
میرے سخن میں کیا ہے کچھ خال و خط بیاں ہے
پر دل سے اس کے پوچھے جو کوئی نکتہ داں ہو
میرا سلام کہنا جھک کر قلقؔ وہی ہے
اس کی گلی میں بیٹھا موزوں سا جو جواں ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.