تھکے تو ایسے تھکے پہلی رات تقریباً
تھکے تو ایسے تھکے پہلی رات تقریباً
خدائی کر گئے مہندی کے ہاتھ تقریباً
ہمارے بس میں اسے دے کے یوں لگا جیسے
خدا نے سونپ دی تھی کائنات تقریباً
نہ کوئی جھونک نہ جھپکی ہی آنکھ میں آئی
گزر چلی تھی گزرنے کی رات تقریباً
ہر اک مقام پر اپنا ہی سامنا خود سے
حریف بن گئی اپنی ہی ذات تقریباً
قدم قدم پہ زمانے کے کام یوں آئے
ڈبو گئیں ہمیں اپنی صفات تقریباً
کئی ہزار شگوفے کھلا گئی دل میں
جو زیر لب ہی کہی ایک بات تقریباً
وہیں پہ چھوٹ گیا اپنا ساتھ بھی ہم سے
جہاں پر آ کے چھٹا ان کا ہاتھ تقریباً
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.