تھے اجالے جس جگہ ٹھوکر وہیں کھائی گئی
تھے اجالے جس جگہ ٹھوکر وہیں کھائی گئی
روشنی آنکھوں میں کیا آئی کہ بینائی گئی
مسکرا کر دیکھ لینے کے فسانے بن گئے
اک ذرا سی بات تھی اور کتنی پھیلائی گئی
سرد جسموں میں حرارت ہی نہ آئی آج تک
بارہا چاروں طرف سے آگ برسائی گئی
اب تو ان کے سامنے بھی آ چکی ہے مصلحت
سچ کہوں تو ہاتھ سے سچوں کے سچائی گئی
کاروبار زندگی چلتا ہے صورت دیکھ کر
ہر مدد پہنچے ہوئے لوگوں میں پہنچائی گئی
اب محبت کا سمندر گھٹتے گھٹتے رہ گیا
ڈبکیاں کھائیں کہاں پانی سے گہرائی گئی
جانکنی کے کرب کا احساس کیا ہوگا اسے
موت جس کی زندگی میں بارہا آئی گئی
پہنچے کفرستان تو ایمان تازہ ہو گیا
خضرؔ بت خانے میں بھی شان خدا پائی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.