تیرہ بختی تو نہ بدلی گردش ایام سے
تیرہ بختی تو نہ بدلی گردش ایام سے
شام بدلی صبح سے اور صبح بدلی شام سے
ترک الفت کی قسم کھا لے غم ایام سے
کام یہ بھی ہو نہیں سکتا دل ناکام سے
کتنے ارمانوں کا خوں تھا یہ نہ دیکھا ایک نے
چند قطرے سب نے دیکھے جو گرے تھے جام سے
جھلملا کر بجھ گئے آخر کو بے روغن چراغ
خشک آنکھیں ساتھ کیا دیتیں سحر تک شام سے
پارسائی کا لہو تک زاہدوں نے پی لیا
بڑھ کے ہیں انگڑائیاں تیری چھلکتے جام سے
تم کہو دیوانہ مجھ کو میں کروں تکمیل عشق
تم کو مطلب نام سے ہے مجھ کو مطلب کام سے
سرحد ملک عدم پر منتظر ہیں صور کے
پاؤں پھیلا کر لحد میں سوئیں کیا آرام سے
صبح عشرت دیکھنے کو کس سہارے پر جئیں
اک چراغ امید کا تھا وہ بھی گل ہے شام سے
خار غم چبھتے ہیں نوابؔ آج جب دل میں تو پھر
بستر گل پر بھی کیا نیند آئے گی آرام سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.