ترا خیال فقط میرا آئنہ کیوں ہے
تو ہی بتا مری فطرت میں یہ وفا کیوں ہے
خزاں نصیب بہاروں کا سلسلہ کیوں ہے
ہمارے ساتھ ہی آخر یہ حادثہ کیوں ہے
امیر شہر سے ہر آدمی ہے ہم آہنگ
غریب شہر مگر اتنا بے نوا کیوں ہے
ہر ایک لمحہ دکھائے گا درد کی تصویر
گئے زمانے کی جانب تو دیکھتا کیوں ہے
اگرچہ جھوٹ ہی معیار صدق ٹھہرا ہے
تو پھر یہ سچ کے خداؤں کو پوجتا کیوں ہے
خود اپنے آپ کو تو نے بکھیر رکھا تھا
اب اپنے آپ کو آخر سمیٹا کیوں ہے
وہ جن کا ذکر بھی توہین آدمیت تھا
اب ایسے خاک نشینوں کا تذکرہ کیوں ہے
ہمیں پتہ ہے کہ کیا عرض مدعا ہوگا
ہمارے سامنے تمہید باندھتا کیوں ہے
اگر نہیں ہے اثر میری آہ و زاری میں
سکوت شب مرے نالوں سے ٹوٹتا کیوں ہے
جب اس سے کوئی تعلق نہیں عظیمؔ تو پھر
ہماری سمت محبت سے دیکھتا کیوں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.