ترے بدن کو ہوا چھو کے جب بھی آتی ہے
ترے بدن کو ہوا چھو کے جب بھی آتی ہے
غزل کا کوئی حسیں شعر گنگناتی ہے
زمیں ترانۂ دوزخ ابھی بھی گاتی ہے
نئی صدی ہے کہ شہنائیاں بجاتی ہے
یہ اور میرے ارادوں کو پختہ کر دے گی
جو برق میرے نشیمن پہ دندناتی ہے
بجھے چراغ جلانا تو معجزہ ٹھہرا
یہ دیکھیے کہ ہوا کس طرح بجھاتی ہے
ادھر بھی سانپوں کی زد پر حیات ہے لرزاں
ادھر فضا کی گھٹن ان کا دل جلاتی ہے
ترا سراغ نہ اپنا پتہ نہ علم نجوم
نہ موت آئی نہ کمبخت نیند آتی ہے
فساد برپا کیا کس نے پھر سمندر میں
بھڑک کے موج ہرے جنگلوں کو کھاتی ہے
ہے سرفرازؔ تقاضائے وقت بھی معلوم
پہ وہ روش جو حسینوں کا دل لبھاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.